پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے راولپنڈی میں شہر کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بڑے کریک ڈاؤن کے بعد اہم سڑکوں اور داخلی راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کرنے کے بعد اپنا منصوبہ بند احتجاج منسوخ کر دیا ہے۔ لیاقت باغ میں ہونے والا یہ احتجاج پی ٹی آئی کی وسیع تر سیاسی تحریک کا حصہ تھا، لیکن اسے سخت حفاظتی اقدامات کے بعد روک دیا گیا جس کا مقصد حامیوں کو پنڈال تک پہنچنے سے روکنا تھا۔
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور، جنہوں نے راولپنڈی کی طرف ایک قافلے کی قیادت کی تھی، کشیدگی بڑھنے پر پشاور واپس آگئے، حکام نے جڑواں شہروں میں ڈی فیکٹو لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔
راولپنڈی بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی۔
پنجاب حکومت نے راولپنڈی ڈویژن میں ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ 144 نافذ کر دی جس کے تحت دو روز کے لیے سیاسی اجتماعات، دھرنے، احتجاج اور ریلیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ پابندی راولپنڈی، اٹک، جہلم اور چکوال کے اضلاع پر لگی تھی اور اس کا مقصد پی ٹی آئی کے مظاہروں کے منصوبوں کو روکنا تھا۔
اس کے جواب میں راولپنڈی بھر میں ہزاروں پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے۔ سٹی پولیس آفیسر خالد ہمدانی نے زیادہ سے زیادہ اہلکاروں کی ڈیوٹی کو یقینی بناتے ہوئے تمام پولیس کی چھٹیاں منسوخ کر دیں۔ مزید برآں، رینجرز کی چار کمپنیاں راولپنڈی اور دو اٹک میں تعینات کی گئیں تاکہ مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تقویت ملے۔
مری روڈ پر پرتشدد تصادم
سخت اقدامات کے باوجود، پی ٹی آئی کے حامی بڑی تعداد میں راولپنڈی کے مختلف مقامات پر جمع ہوئے، خاص طور پر مری روڈ کے ساتھ، جو جلد ہی جھڑپوں کے لیے فلیش پوائنٹ میں بدل گیا۔ مظاہرین نے حکام کی جانب سے رکھے گئے کنٹینرز کو ہٹانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پولیس کے ساتھ پرتشدد تصادم ہوا۔
حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے رکاوٹیں ہٹا کر لیاقت باغ کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے آنسو گیس کا جواب دیتے ہوئے ہجوم کو منتشر کیا اور قریبی رہائشی علاقوں میں افراتفری مچادی۔ آنسو گیس کے گولے گھروں میں گرے جس سے مکینوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ مظاہرین نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پولیس پر پتھراؤ کیا جس سے مری روڈ پر مزید جھڑپیں ہوئیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد گرڈ لاک میں
احتجاج کے باعث راولپنڈی اور اسلام آباد میں شدید خلل پڑا۔ مری روڈ اور اسلام آباد ایکسپریس وے سمیت اہم سڑکوں کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ٹریفک جام ہوگیا، مسافروں کو گھنٹوں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ میٹرو بس سروس معطل کر دی گئی اور علاقے میں انٹرنیٹ سروس سست پڑ گئی۔
راولپنڈی میں فیض آباد انٹرچینج، شمس آباد، ڈبل روڈ اور کھنہ پل سمیت 25 سے زائد اسٹریٹجک پوائنٹس پر کنٹینرز رکھے گئے تھے۔ اسی طرح اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے حامیوں کو احتجاجی مقام کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے ٹی چوک، کورال، کھنہ اور گولڑہ موڑ جیسے اہم موڑ کو بند کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی کی قیادت گرفتار
کریک ڈاؤن کے دوران، پولیس نے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ سمیت متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں کو راولپنڈی پہنچنے کی کوشش کے دوران گرفتار کر لیا۔ دونوں رہنماوں کو کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا گیا تھا اور بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
دیگر مقامی رہنماؤں جیسے پی ٹی آئی کی سیمابیہ طاہر اور ایم پی اے تنویر اسلم کو بھی دفعہ 144 کی پابندی کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں تنویر اسلم کو اپنی گرفتاری کے دوران حکام کے خلاف بولتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور ان پر طاقت کے زیادہ استعمال کا الزام لگایا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کا منصوبہ بند احتجاج راولپنڈی انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے سخت اقدامات کی وجہ سے روک دیا گیا، سڑکیں بلاک کر دی گئیں، رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ جب کہ پارٹی نے احتجاج ختم کر دیا ہے، پی ٹی آئی کی قیادت بدستور منحرف ہے، اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی سیاسی تحریک اس طرح کے چیلنجوں کے باوجود جاری رہے گی۔
شہر بھر میں سیکیورٹی لاک ڈاؤن اور پرتشدد جھڑپوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں روزمرہ کی زندگی کو درہم برہم کر دیا، جس سے جڑواں شہروں کو بدامنی اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا گیا۔