پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے پیر کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف سخت تنقید کا آغاز کیا، ان کی مفاہمت کی پیشکش کو “بوگس” قرار دیتے ہوئے اور ان کے افتتاحی خطاب کو “زیرو بائی زیرو” قرار دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے عہدہ جیتنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بیچنے کو کچھ نہیں دیا۔ ایوب نے مزید تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، بشمول عمران خان اور بشریٰ بی بی، اور سیاسی استحکام کے لیے ان کے مینڈیٹ کی واپسی کی ضرورت پر زور دیا۔
سیاسی منظر نامہ بدستور غیر یقینی صورتحال سے بھرا ہوا ہے کیونکہ دونوں فریق زبانی جھگڑے میں مصروف ہیں، الزامات اور جوابی الزامات کے ماحول کے درمیان اڑ رہے ہیں۔ جوں جوں دن آگے بڑھ رہا ہے، سب کی نظریں پارلیمنٹ پر لگی ہوئی ہیں، اپوزیشن کی قیادت کے حوالے سے اہم فیصلے اور اس کے نتیجے میں ملک کی سیاسی رفتار پر اثرات کا انتظار ہے۔
دریں اثناء پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے پیر کو کہا کہ پارلیمانی اجلاس چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے، اس کے باوجود روایتی تقاریر کارروائی پر حاوی ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے عندیہ دیا کہ آج فیصلہ کن لمحہ ہوگا جب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا انتخاب کیا جائے گا۔ ایک صحافی کی جانب سے جب اس عہدے کے لیے ان کی ممکنہ امیدواری کے بارے میں پوچھا گیا تو بیرسٹر گوہر خفیہ ہی رہے، ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کون بنے گا اس کا پتہ دن کے آخر میں ہو جائے گا۔
پارلیمانی اجلاسوں کے اہم مالی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے، پی ٹی آئی کے چیئرمین نے انکشاف کیا کہ اسمبلی کی کارروائی پر روزانہ 65 ملین روپے کی حیران کن رقم خرچ کی جاتی ہے، جس سے اجلاسوں کی کارکردگی اور نتیجہ خیزی کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وقت ہی بتائے گا کہ کیا حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔