62

سینیٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ‘آئینی طور پر’ معزول کیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی کے بانی اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ایک آئینی طریقہ کار تھا اور اس کی قیادت پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ “آئینی طور پر” نکال دیا گیا تھا۔

اپریل 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ الائنس کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دیا گیا تھا۔

سینیٹر کے تبصرے جیو نیوز کے پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ کے دوران اس وقت سامنے آئے جب انہوں نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی مخالفت کی جنہوں نے “مرکز میں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اسلام آباد پر دھاوا بولنے” کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ “غیر آئینی” ہے۔
انہوں نے کہا، “حکومت کو گرانے کے کئی آئینی طریقے ہیں اور ہماری حکومت کو بھی عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد آئینی طور پر ہٹا دیا گیا تھا،” انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایسے طریقہ کار کو “قانونی” سمجھتے ہیں۔

تاہم سینیٹر ظفر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کو بھی کسی بھی وقت گرایا جا سکتا ہے، کیونکہ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے قانون ساز جلد ہی پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں اکثریت میں ہوں گے۔

قانون ساز سے آئین میں عدلیہ پر تنقید کی گنجائش کے بارے میں بھی سوال کیا گیا۔ اینکر نے پی ٹی آئی کے سخت مؤقف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم X، جو پہلے ٹویٹر تھا، کے ساتھ ساتھ پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری رؤف حسن کے ایک پریس کے دوران سخت زبان کے استعمال پر بھی روشنی ڈالی۔

سوال کے جواب میں سینیٹر ظفر نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید ہو سکتی ہے لیکن آئین کے تحت جج کے کردار پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔

ایک دن پہلے، حسن نے – پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ – نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والے بینچ سے خود کو الگ کر لیں، یہ الزام لگایا کہ وہ اس معاملے میں انصاف نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ کیس کے حوالے سے چیف جسٹس عیسیٰ ایک طرف ہیں، پوری عدلیہ دوسری طرف ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ جن کا پروگرام میں انٹرویو بھی کیا جا رہا تھا نے کہا کہ عدلیہ میں بھرتیوں اور پروموشن سے لے کر فیصلوں تک بڑے مسائل ہیں جب کہ جج پر سب سے زیادہ دباوٴ ہے۔ بار

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں