وزیر اعظم شہباز شریف کو بتایا گیا ہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت نگران حکومت کے دور میں اضافی گندم درآمد کی گئی جس سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، جیو نیوز نے ذرائع کے حوالے سے جمعرات کو رپورٹ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر گندم اسکینڈل کی تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے وزیراعظم آفس کو بریفنگ میں بتایا کہ نگراں حکومت کے دور میں وزارت خزانہ کی سفارش پر نجی شعبے کو ایک مقررہ حد کے بجائے درآمد پر مکمل چھوٹ دی گئی تھی اور گندم کے تاجروں کو کسٹم ڈیوٹی اور جنرل سیلز ٹیکس سے بھی استثنیٰ دیا گیا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال 28.18 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی تھی اور نگران حکومت نے 2.45 ملین ٹن مزید درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن لمیٹڈ (پاسکو)، حکومت کی اناج کی خریداری اور ذخیرہ کرنے کا اہم ادارہ، اور صوبائی محکمے کاشتکاروں سے 7.80 ملین ٹن کے مطلوبہ ہدف کے بجائے صرف 5.87 ملین ٹن گندم خرید سکے۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ عبوری کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے وزارت تجارت اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے سمری بھیجی۔
واضح رہے کہ ملک میں گندم کی فصل تیار ہے اور فی 40 کلو کی قیمت بھی صوبائی حکومتوں نے مقرر کی ہے۔ تاہم پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں نے ابھی تک کسانوں سے خریداری شروع نہیں کی ہے۔
صوبائی حکومتوں کی جانب سے گندم کی عدم خریداری کے باعث گندم سرکاری نرخ سے کم قیمت پر فروخت کی جارہی ہے جس سے کاشتکار پریشان ہیں۔