52

پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کا کہنا ہے کہ معاشرے کو تعلیم دینا اساتذہ اور یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہے

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ مل کر مذہبی منافرت کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے، جس کا مقصد نوجوانوں میں توہین رسالت کے قوانین اور ان کی سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے ڈائریکٹوریٹ آف اسٹوڈنٹس افیئرز، مذہبی منافرت کے خلاف آگاہی کمیٹی اور پی ایچ ای سی کے زیر اہتمام ‘توہین رسالت قانون اور ہماری سماجی ذمہ داریاں’ کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی شیخ زید اسلامک سنٹر کے آڈیٹوریم میں ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

اس موقع پر سابق وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود، صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اسد منظور بٹ، ڈین فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن پی ایچ ای سی ڈاکٹر رانا تنویر قاسم، ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز نے بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر محمد علی کلاسرا، ڈاکٹر سعید احمد، فیکلٹی ممبران اور طلباء کی کثیر تعداد موجود تھی۔

پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ معاشرے کو آگاہی دینا اساتذہ اور جامعات کی ذمہ داری ہے، جب تک عوام قوانین سے آگاہ نہیں ہوں گے جہالت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ درست معلومات کا حصول اور غلط معلومات سے بچنا ہی اس مسئلے کا حل ہے جس کے لیے سوشل میڈیا ماہرین کو تیار رہنا ہوگا۔

انہوں نے پی ایچ ای سی کی جانب سے مذہبی منافرت کے خلاف بیداری مہم کو سراہتے ہوئے کہا کہ سب کو مل کر ایک ایسا معاشرہ بنانا ہوگا جو مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کر سکے۔ انیق احمد نے کہا کہ ہر دور کے شیطانوں کی چالیں مختلف ہوتی ہیں جنہیں علم کے بغیر پہچانا نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ تنقید، تذلیل اور تذلیل میں فرق ہے اور آزادی اظہار کی آڑ میں توہین رسالت کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جڑانوالہ، سیالکوٹ جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین سے آگاہی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جڑانوالہ میں علماء کرام نے عیسائیوں کے لیے مساجد کے دروازے کھول دیے ہیں جو مذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ نادیدہ قوتیں توہین رسالت کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے پس پردہ کردار ادا کر رہی ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

اسد منظور بٹ نے کہا کہ محبت اور جذبات کی کچھ حدود ہوتی ہیں جن پر عمل کر کے ہی مہذب معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین کا غلط استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی تضحیک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل آلات کو مناسب احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے لیے 295A، B اور C قوانین موجود ہیں، جن کے مطابق توہین مذہب کے مرتکب شخص کے بارے میں حکام کو آگاہ کیا جائے۔ ڈاکٹر تنویر قاسم نے کہا کہ اسلام میں تمام انسانیت کے لیے ایک جامع قانون موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اسلام دشمن عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام، اسلامی عبادات، پیغمبر اسلام اور مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والی ویڈیوز، کارٹون اور تصاویر پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملوث پائے جانے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن، پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن، یونیورسٹیز، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن، ایف آئی اے وغیرہ معزز عدلیہ کی ہدایات کی روشنی میں اس سلسلے میں سماجی ذمہ داریوں کو اجاگر کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے معاشرے پر منفی اور مضر اثرات انتہائی تشویش کا باعث بنتے جا رہے ہیں اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات میں آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی نے کہا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی تقسیم نفرت، انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کو ہوا دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی منافرت کو کم کرنے اور اختلاف کی خوبصورتی کو سمجھنے کے لیے تربیت بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمد علی کلاسرا نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔ بعد ازاں آغاز سحر گرین کمیونٹی کے تعاون سے شیخ زید اسلامک سنٹر میں شجر کاری مہم کا بھی آغاز کیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں